انٹرنیٹ اِس صدی کی اہم ترین ایجادات میں سے ایک ہے جو آج کل کے زمانے میں نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی بلکہ گھریلو زندگی کا بھی ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ مگر حال ہی میں اِس کا ایک اور مثبت پہلو سامنے آیا اور وہ ہے ’آن لائن اسکول‘۔
آن لائن اسکول نہ صرف یونیورسٹی بلکہ ثانوی اور ابتدائی درجوں میں بھی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
’وائس آف امریکہ‘  کی  ایک رپورٹ کے مطابق جہاں  ’ڈسٹنس لرننگ‘ نے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کےلیے تعلیم کے حصول کوممکن بنا دیا وہاں آن لائن اسکول نے واشنگٹن ڈی سی جیسے شہروں میں بھی اپنی جگہ بنانی شروع کردی ہے۔ واشنگٹن کے ایک پبلک اسکول کے تمام بچے آن لائن تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
لویل بھی آن لائن تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں میں سے ایک ہیں جو اپنے گھر بیٹھے حساب کی کلاس لے رہے ہیں جب کہ اُن کی ٹیچر 40کلومیٹر کے فاصلے پر بیٹھی ہیں۔
لویل کی والدہ انیتا اپنے بچوں کو گھر میں تعلیم دینا چاہتی تھیں۔ اُن کا یہ کام واشنگٹن کے ایک پبلک اسکول نے آسان کردیا جو خاص طور پر آن لائن تعلیم کے لیے بنایا گیا ہے جو نہ صرف نصابِ تعلیم بلکہ آن لائن اساتذہ کی سہولت بھی مہیا کرتا ہے۔ انیتا کا کہنا ہے کہ جب تک آپ کا بچہ پہلی، دوسری اور تیسری کلاسوں میں ہو تو آپ کواُس کے ساتھ رہنا پڑتا ہے تاکہ اسے سمجھنے میں آسانی ہو۔
آن لائن اسکولوں کی مقبولیت میں تیزی سےاضافہ ہورہا ہے۔ جیف کوٹوسکی اِسی طرح کے ایک اسکول K12 کے وائس  پریزیڈنٹ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پورے امریکہ میں اِس وقت 250000آن لائن طالب علم ہیں جِن میں سے 100000ہمارے ادارے کے ہیں۔
لویل کی ٹیچر سوزان بھی اِس ادارے سے منسلک ہیں اور کہتی ہیں کہ آن لائن تعلیم اُن تمام طالب علموں کے لیے مناسب ہے جو روایتی اسکولوں میںbullying اوراِس جیسے اور مسائل کا شکار ہوتے ہیں۔
مگر، کسی بھی چیز کی طرح اِس نظام ِتعلیم کے بھی مثبت اور منفی دونوں زاوئے ہیں۔
نیشنل ایجوکیشنل ایسو سی ایشن کے صدر ڈینس وان روکل بھی آن لائن تعلیم کے بارے میں فکرمند نظر آتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ طالب علموں، خاص طور پر چھوٹی کلاسوں کےبچوں کےلیے براہِ راست تدریسی سلسلہ بہت ضروری ہے۔ اِس لیے، اُس سے منسلک لوگوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ باقاعدہ ریسرچ کریں کہ یہ تعلیمی طریقہ طالب علموں کے لیے کس حد تک فائدہ مند ہے۔