Like us

Receive all updates via Facebook. Just Click the Like Button Below...

Follow me on Social Networks

Add this !

Friday, April 20, 2012

ایئر بلیو کا طیارہ پائلٹ کی غلطی سے تباہ ہوا‘

تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جو پندرہ دسمبر کو منظر عام پر لائی جائے گی: وزیر دفاع
پاکستان کے وزیردفاع چوہدری احمد مختار نے کہا ہے کہ گزشتہ سال اسلام آباد میں مارگلہ کی پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہونے والے نجی ہوائی کمپنی ایئربلیو کا مسافر طیارہ پائلٹ کی غلطی کی وجہ سے تباہ ہوا تھا۔
ایک مقامی ٹیلی وژن چینل ’ایکسپریس نیوز‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں احمد مختار نے کہا کہ کنٹرول ٹاور اور پائلٹ کے درمیان حادثے کے آخری لمحات میں ہونے والی گفتگو کی بناء پر یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے جو پندرہ دسمبر کو منظر عام پر لائی جائے گی۔
کراچی سے اسلام آباد جانے والے اس بد قسمت طیارے میں ایک سو چھیالیس مسافر اور عملے کے چھ ارکان سوار تھے۔ اس حادثے میں کوئی بھی زندہ نہیں بچا تھا۔
اعلیٰ ترین سطح سے احکامات کے بعد شروع ہونے والی تحقیقات کا مقصد حادثے کی وجہ معلوم کرنا اور مستقبل میں ایسے حادثات ہونے سے روکنے کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھا۔
اس تحقیقاتی ٹیم کو کئی روز کی تلاش کے بعد طیارے میں ریکارڈنگ کرنے والا ٹیپ مارگلہ کی پہاڑیوں ہی سے مل گیا تھا۔
طیارے کے کپتان، کنٹرول ٹاور اور ریڈار کے آپریٹر کے درمیان ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر ماہرین نے اس حادثے کی تصویر مکمل کی ہے، جس سے واقف ایک ماہر نے بی بی سی کو اس سارے واقعے کی تفصیل بتائی۔
تفصیل کے مطابق اُس روز موسم خراب تھا اور تیز بارش ہو رہی تھی۔ کراچی سے آنے والی ایئربلیو کی اس پرواز سے قبل دو یا تین جہاز اترے بغیر اسلام آباد کی فضاء سے لوٹ چکے تھے۔

غیر معمولی واقعہ

اس سارے معاملے سے آگاہ ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ خراب موسم میں ہوائی اڈے کی نزدیکی شاہراہ کو رن وے سمجھ لینے کی غلطی ایوی ایشن صنعت میں غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔
ریکارڈنگ کے مطابق جب ایئربلیو فلائٹ نے کنٹرول ٹاور سے رابطہ کر کے اترنے کی اجازت طلب کی تو جہاز کے کپتان کو بتایا گیا کہ موسم موافق نہیں ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال میں طے شدہ اصول کے مطابق یہ جہاز کے کپتان کا فیصلہ ہوتا ہے کہ وہ اترنا چاہتا ہے یا نہیں۔ فلائٹ دو صفر دو کے کپتان نے اترنے کا فیصلہ کیا اور کنٹرول ٹاور نے انہیں تمام متعلقہ تکنیکی تفصیلات جس میں دیکھ سکنے کی صلاحیت، ہوا کی رفتار اور رخ اور دیگر عوامل سے آگاہ کر دیا۔
اس کے بعد پائلٹ نے جیسا کہ طریقہ کار ہے، ریڈار سے رابطہ کیا اور اپنی پوزیشن چیک کی۔
اس کے بعد پائلٹ دوبارہ کنٹرول ٹاور کے ساتھ رابطے میں آ گیا۔ طے شدہ اصول کے مطابق ایک ہزار فٹ کے فاصلے سے پائلٹ کو رن وے نظر آنا چاہیے۔ جب وہ اس پوزیشن میں آئے تو انہوں نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ وہ رن وے کو دیکھ سکتے ہیں۔
اس اعلان کے بعد اصولی طور پر جہاز کو تھوڑا سا دائیں مڑ کر رن وے کے برابر پہنچنا چاہیے اور اس کے بعد بائیں ہاتھ گھوم کر چالیس سیکنڈ سے ایک منٹ کے اندر رن وے کو چھو لینا چاہیے۔
بارش کے باعث کنٹرول ٹاور کو جہاز دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
لیکن ریڈار نے محسوس کیا کہ جہاز کی پوزیشن وہ نہیں ہے جو لینڈنگ سے عین پہلے ہونی چاہیے۔
ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پائلٹ نے اسلام آباد ہائی وے کو شاید رن وے سمجھ لیا تھا
ریڈار آپریٹر چونکہ پائلٹ کی فرکوینسی پر نہیں تھا لہذٰا اس نے کنٹرول ٹاور کو بتایا کہ جہاز کی پوزیشن درست نہیں ہے۔
کنٹرول ٹاور نے جہاز کو بتایا کہ آپ کی پوزیشن ٹھیک نہیں لگ رہی۔ پائلٹ نے جواباً کہا کہ مجھے رن وے دکھائی دے رہا ہے۔
چند سیکنڈز کے بعد ریڈار نے محسوس کیا کہ جہاز ایئرپورٹ کی حدود ’کنٹرول زون باؤنڈری‘ سے باہر نکل رہا ہے جس کی حد چار سے پانچ میل ہوتی ہے۔
یہ پیغام کنٹرول ٹاور کو دیا گیا جس نے فوراً جہاز سے رابطہ کیا اور کہا ’یہ تم کیا کر رہے ہو تمہارا رخ مارگلہ کی پہاڑیوں کی طرف ہے۔‘
اس وقت جہاز سے آواز آتی ہے ’یہ کیا ہو رہا ہے۔‘ اور پھر پائلٹ کہتا ہے ’اوہ مائی گاڈ‘ اس کے ساتھ ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جہاز کا گئیر تبدیل کر کے اسے اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن شاید اس وقت تک بہت دیر ہو چکی ہوتی تھی۔
اس گفتگو کا تجزیہ کرنے والے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پائلٹ نے اسلام آباد ہائی وے کو شاید رن وے سمجھ لیا تھا۔
جہاز کی پوزیشن اور پائلٹ کا دو بار اصرار کہ اسے رن وے نظر آ رہا ہے اس دلیل کے حق میں جاتی ہیں۔
اس سارے معاملے سے آگاہ ایک ماہر نے بی بی سی کو بتایا کہ خراب موسم میں ہوائی اڈے کی نزدیکی شاہراہ کو رن وے سمجھ لینے کی غلطی ایوی ایشن صنعت میں غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔

0 comments:

Post a Comment