Like us

Receive all updates via Facebook. Just Click the Like Button Below...

Follow me on Social Networks

Add this !

Friday, April 20, 2012

یورپ میںبہن بھائی کی آپسی شادیوں کی شرمناک داستان

سبیل احمدانبالوی

جب ہم اس جوڑے سے پہلی ملاقات کے لئے گئے تو جرمنی،لیپزگ میں اپنے گھر کے کچن میں پیٹرک سٹوبنگ اور سوزن کیرولاسکی اپنے ننھے بچے کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وہ شہر کے مشرقی حصے کے مضافات میں ایک چھوٹے سے فلیٹ میں اکھٹے رہتے ہیں۔ دیکھنے میں یہ عام سا گھرانہ لگتا ہے لیکن پیٹرک اصل میں سوزن کا حقیقی بھائی ہے اور دونوں کے درمیان میاں بیوی کا رشتہ بھی ہے اور اسے ان کے چار بچے بھی ہیں۔’بہت سے لوگ اسے ایک جرم کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔‘ یہ الفاظ ہیں پیٹرک کے جو تالے بنانے کا کام کرتے ہیں لیکن آجکل بیروزگار ہیں۔’ ہمارے درمیان بھی دوسرے جوڑوں کی طرح پیار کا رشتہ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بھی فیملی ہو۔ ہمارا کنبہ اس وقت بکھر گیا جب ہم قدرے چھوٹے تھے۔ اس کے بعد میں اور سوزن ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔‘ تیس سالہ قبل پیٹرک کو کسی نےگود لے لیا تھا اور وہ تب سے گیک دوسرے شہر پوٹسڈم میں رہے۔پیٹرک اپنی اصل ماں اور کنبے کے دیگر لوگوں سے دوبارہ اس وقت ملے جب ان کی عمر تئیس سال کے ہو چکی تھی۔ پھر وہ سنہ دو ہزار میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ اپنے آبائی قصبے لیپزگ صرف اس لیے گئے کہ وہ اپنے دوسرے عزیزوں سے مل سکیں۔ تب وہ اپنی بہن سوزن سے پہلی مرتبہ ملے اور جوڑے کا کہنا ہے کہ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد انہیں ایک دوسرے سے محبت ہو گئی اور انہوں نے آپس میں شادی کرلی۔بائیس سالہ سوزن نے مجھے بتایا: ’جب میں چھوٹی تھی تو مجھے نہیں پتہ تھا کہ میرا ایک بھائی بھی ہے۔ میں جب پیٹرک سے ملی تو اتنی حیران ہوئی۔‘سوزن کا کہنا ہے کہ انہیں پیٹرک کے ساتھ اپنے رشتے پر کوئی شرمندگی نہیں ہوتی۔ ان کا کہنا تھا: ’میں امید کرتی ہوں کہ یہ قانون تبدیل ہو جائے گاکہ بہن بھائی کی شادی غیر قانونی ہے۔‘ ’ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ میں اپنی فیملی کے ساتھ رہوں اور حکام اور عدالتیں میرا پیچھا چھوڑ دیں۔‘ بہن بھائی کی شادی کے خلاف قانون کی بنیاد بہت قدیم اصولوں پر ہے۔ یہ قانون فرانس میں ختم ہو چکا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے جرمنی میں بھی ختم کیا جائے۔‘ پیٹرک اور سوزن گزشتہ چھ سال سے اکھٹے رہ رہے ہیں اور اب ان کے چار بچے بھی ہیں۔حکام نے ان کے بڑے بیٹے ایرک کو ایک دوسرے جوڑے کے سپرد کر دیا اور ان کے دو دوسرے بچوں کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا۔سوزن نے کہا ’ہمارے بچے دوسرے والدین کے پاس ہیں۔ اگرچہ ہم جتنی دفعہ ممکن ہو ان سے بات بھی کرتے ہیں لیکن حکام نے ہم سے اتنا کچھ چھین لیا ہے کہ کیا بتاؤں۔‘ ’ہمارے پاس صرف ہماری سب سے چھوٹی بیٹی صوفیہ رہ گئی ہے۔‘جرمنی میں بہن بھائیوں کے درمیان جنسی تعلق کا ہونا ایک جرم ہے۔ پیٹرک اس جرم کی سزا میں پہلے ہی دو سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اور اگر جرمنی کے قانون کی شق نمبر 173 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تو ان کے سر پر مزید قید کی سزا کی تلوار لٹک رہی ہے۔بچوں سے جدا ہونے سے یہ مغموم ہیں۔ جوڑے کے وکیل اینڈرک ولیم نے جرمنی کے اعلیٰ ترین قانونی ادارے، وفاقی آئینی عدالت، میں خون کے رشتوں کے درمیان جنسی تعلق پر پابندی کے قانون کے خلاف اپیل کر رکھی ہے۔اس سلسلے میں ڈاکٹر ولیم نے کہا: ’ جرمنی کے فوجداری قانون کے تحت، جو کہ خود اٹھارہ سو اکہتر کا بنا ہوا ہے، قریبی رشتہ داروں کے درمیان جنسی تعلق کا ہونا ایک جرم ہے جس کی سزا تین سال قید تک ہو سکتی ہے۔ یہ قانون بہت پرانا ہے اور یہ اس جوڑے کے شہری حقوق کے خلاف ہے۔‘ ڈاکٹر ولیم نے مزید کہا ’ معذور والدین، یا وہ جنہیں موروثی امراض ہوتے ہیں یا چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو بچے پیدا کرنے کی اجازت کیوں دی جاتی ہے؟ یہ جوڑا کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا رہا۔ یہ تعصب ہے۔ اور اس کے علاوہ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر بچہ انمول ہے۔‘اس جوڑے کا معاملہ متنازعہ ہے اور اس پر جرمنی میں ذرائع ابلاغ میں خاصی لے دے ہو رہی ہے۔برلن کی ایک یونیورسٹی میں موروثی مسائل کے ماہر پروفیسر جرگن کنز کا اس سلسہ میں کہنا تھا: ہمیں جرمنی اور دیگر یورپ میں اس قانون کی ضرورت ہے۔ اس کی بنیاد مغربی معاشروں کی بہت پرانی روایات پر ہے اور یہ قانون قائم رکھنے کی وجوہات موجود ہیں۔پروفیسر نے مزید کہا: ’ طبعی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اگر بچوں کے والدین آپس میں قریبی رشتہ دار ہوں تو بچوں میں موروثی نقائص کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر بہن بھائی آپس میں بچہ پیدا کریں تو اس بات کے پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ بچہ نارمل نہیں ہو گا۔‘پیٹرک اور سوزن کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ اس قانون کے خلاف لڑیں۔پیٹرک کا کہنا تھا ’میں نے پڑھا ہے کہ کچھ ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ بہن بھائیوں کے درمیان تعلق سے پیدا ہونے والے بچے معذور ہو سکتے ہیں لیکن پھر معذور اور عمر رسیدہ والدین بھی تو بچے کرتے ہیں۔‘ پیٹرک نے مزید کہا : لوگ ہمارے بچوں کے بارے میں بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ نارمل نہیں لیکن یہ غلط ہے۔ ہمارے بچے معذور نہیں ہیں۔ ہمارے سب سے بڑے بچے ایرک کو مرگی ہے، لیکن اس کی پیدائش دو ماہ پہلے ہو گئی تھی اور اسے چیزیں سیکھنے میں بھی دقت کا سامنا تھا۔ ہماری دوسری بچی سارہ کی بھی خاص ضروریات (special needs) ہیں۔‘ جوڑے کا دعویٰ ہے کہ انہیں دوستوں اور عزیزوں نے بہت حوصلہ دیا ہے۔’جب ہم بازار جاتے ہیں تو لوگ ہمیں پہچان لیتے ہیں اور ان میں کئی کہہ چکے ہیں کہ وہ ہماری قانونی جد وجہد کی حمایت کرتے ہیں۔‘ پیٹرک نے کہا۔’ہم چاہتے ہیں معاشرہ ہمیں اسی طرح قبول کرے جیسے وہ کسی بھی دوسرے جوڑے کو قبول کرتا ہے۔سنہ دو ہزار چار میں پیٹرک نے خود اپنی مرضی سے بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ختم کرنے والا آپریشن بھی کرا لیا تھا۔یہ بات مدنظر رکھتے ہوئے ان کے وکیل سوال کرتے ہیں کہ: ’ اب جوڑے کے لیے یہ بات قانونی ہے کہ وہ اکھٹے رہیں۔‘ڈاکٹر ولیم نے ہمیں اس وقت بتایا کہ انہیں توقع ہے کہ اس معاملے میں عدالت کا فیصلہ اگلے چند ماہ میں آ جائے گا۔وکیل کے مطابق ’ہم نے سنا ہے کہ آئینی عدالت کے نائب صدر نے کہا ہے کہ اس مسئلے پر جرمنی میں بنیادی نوعیت کا بحث و مباحثہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بہت سے وکلاء کا کہنا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور مجھے یقین ہے کہ میرے مؤکل یہ مقدمہ جیت جائیں گے۔ بہن بھائی کی شادی کے خلاف قانون کی بنیاد بہت قدیم اصولوں پر ہے۔ یہ قانون فرانس میں ختم ہو چکا ہے اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے جرمنی میں بھی ختم کیا جائے۔‘ مگر ان سب امیدوں کے باوجود ایسا نہیٰں ہوا جیسا کہ یہ جوڑا اور اس کا وکیل سمجھ رہا تھا اورجرمنی سے تعلق رکھنے والے بھائی بہن جن کا آپس میں جنسی تعلق تھا ایک کنبے کی طرح زندگی گزارنے کا کیس ہار گئے ہیں۔انہوں نے اس سلسلے میں انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں بھی کیس دائر کر رکھا تھا۔انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا کہنا تھا کہ بہن بھائیوں کے درمیان جنسی تعلق پر پابندی جرمنی کا حق ہے۔پیٹرک سٹیوبنگ اور سوزان کارولسکی کے چار بچے ہیں جن میں سے دو معذور ہیں۔جرمنی میں بہن بھائیوں کے درمیان جنسی تعلق کا ہونا ایک جرم ہے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق بہن بھائیوں کے درمیان جنسی تعلق کے خلاف قانون کی ایک بڑی وجہ اس رشتے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں موروثی نقائص ہے۔ اس جوڑے کے دو بچے معذور ہیں۔ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ معذور افراد یا زائد عمر کی خواتین کے ہاں بچوں کی پیدائش میں بھی خطرات ہیں لیکن ان پر تو کوئی پابندی نہیں ہے۔پیٹرک کا کہنا ہے کہ ان کے ذاتی زندگی اور ایک فیملی کی طرح زندگی گزارنے کے حق کو پامال کیا گیا ہے۔لیکن انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا کہنا ہے کہ جرمنی میں بہن بھائیوں کے درمیان شادی پر پابندی سے فیملی کے تحفظ کے بنیادی حق کے خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ اگر آپ سوچ رہے ہوںکہ گے کہ یورپ سفید فام کس قدر گھٹیا کام کررہے ہیں تو آپ کی سوچ غلط ہے کیونکہ بھائی بہن کی شادیاں صرف انگریز ہی نہیں بلکہ پاکستانی مسلمان خاندان بھی کرارہے ہیں۔ایک پاکستانی خاندان کو جو مسلسل برطانوی امیگریشن نظام کو غلط استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا اور جس نے اپنے مفادات کے لئے سگے بھائی اور بہن کی شادی جیسے فراڈ سے بھی گریز نہیں کیا، جب کہ ہزاروں پونڈ مالیت کے بینیفٹس جعل سازی کے ذریعہ کلیم کئے، عدالت کی جانب سےحال ہی میں سزائیں سنا دی گئی ہیں۔ مسلسل دھوکہ دہی کرتے ہوئے 82 سالہ باغ علی نے اپنے بیٹے اور بیٹی کی شناخت تبدیل کردی تاکہ برطانیہ میں اس کی نئی بیوی کے کمسن بچے بھی آباد ہوسکیں۔ شناخت کی تبدیلی کے ذریعے ارم شہزادی اور عثمان علی خان برطانیہ میں اپنی ماں ریحانہ اعوان سے ملنے اور آباد ہونے کے قابل ہوگئے۔ یہ سازش مزید آگے بڑھی اور شہزادی نے اپنے سگے بھائی رضوان کے ساتھ جعلی شادی کرلی تاکہ اسے برطانوی شہریت مل سکے۔ 44 سالہ اعوان اور علی نے1995ء میں پاکستان میں شادی کی۔ شادی کے بعد اس نے برطانوی شہریت حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی۔ ناکامی کے بعد وہ وزیٹر ویزا پر 2001 ء میں برطانیہ آئی۔ 2003ء میں یہ جوڑا جس کے6 بچے تھے ہیلی فیکس میں رہتا تھا لیکن جنوری2005ء میں ان میں طلاق ہوگئی۔ یو کے بی اے کے مطابق عثمان علی اور ارم شہزادی کے درمیان جہلم میں جولائی2006ء میں جعلی شادی ہوئی۔ یو کے بی اے کے قائمقام ریجنل ڈائریکٹر سٹیو لیمب کے مطابق اس خاندان نے باقاعدگی کے ساتھ فراڈ اور جعل سازی کی۔ اعوان، عثمان علی اور شہزادی کو ستمبر 2010ء میں اور رضوان خان کو نومبر میں گرفتار کرلیاگیا۔باغ علی کو2011ء میں گرفتار کیا گیا۔ عدالت نے علی کو 12 ماہ کی سزا، جس میں دو سال کی معطل سزا بھی شامل تھی، اعوان کو دس ماہ اور دو سال کی معطل سزا اور 200 گھنٹے کا بلا معاوضہ کام ، عثمان علی خان کو10 ماہ کی سزا، رضوان خان کو 15 ماہ کی سزا اور شہزادی کو 12 ماہ کی سزا مع دو سال کی معطل سزا اور 200 گھنٹے کے بلا معاوضہ کام کی سزا دی۔

0 comments:

Post a Comment