Like us

Receive all updates via Facebook. Just Click the Like Button Below...

Follow me on Social Networks

Add this !

Friday, April 20, 2012

میں ٹیکسی ڈرائیور سے بھارت کا انڈر ورلڈ ڈان کیسے بنا؟ ابو سالم کی کہانی



منصور مہدی

انڈر ورلڈ کا ڈان ابو سالم بھی دیگر نوجوانوں کی طرح اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہوا مگر اسے کوئی ملازمت نہ ملی تو اس نے آبائی قصبے کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا اور دہلی چلا آیا جہاں پر اس نے ٹیکسی ڈارئیور کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا مگر وہ اس سروس سے مطمئین نہیں تھاکیونکہ اس میں تو اس کا گزارا بھی مشکل سے ہوتا تھا جبکہ وہ اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کیلئے زیادہ سے زیادہ پیسے کمانا چاہتا تھا کیونکہ وہ کوئی عام نوجوان نہیں تھا بلکہ وہ کھٹن راہوں پر چل کر اپنی منزل تلاش کرنے کا عادی تھا چنانچہ اس نے ممبئی جانے کا ارادہ کر لیا اور ایک دن دہلی کو بھی خیر باد کہہ دیا۔80ءکی دہائی کے اوسط میں ابوسالم ممبئی چلا آیا اور ایک ٹیلی فون بوتھ چلانے لگا۔یہاں پر اس کی ملاقات اپنے چچا زاد بھائی اختر انصاری سے ہوئی جو جرائم کی دنیا سے وابستہ تھا اور سید ٹوپی کا داہنا ہاتھ مانا جاتا تھا ۔ چنانچہ اس نے بھی دیگر کاموںکے ساتھ ساتھ چھوٹے موٹے جرائم کرنے شروع کر دیے ۔یہاں وہ ان کے ساتھ مل کر زمین اور جائیداد کے جھگڑے نمٹانے لگے لیکن وہاں انہی دنوں اپنی کالج جانے والی ایک محبوبہ کے اغواءکے الزام میں پکڑا گیا جس کے بعد وہ اندھیری سے سانتا کروز آگیا جہاں پرانہوں نے ایک ٹریول ایجنسی میں کام کیا۔پھر اس کے تعلقات میں اضافہ ہو تاگیا اور ایک دن اس کی ملاقات داﺅد ابراہیم کے چھوٹے بھائی انیس ابراہیم سے ہوئی جو بعد میں اچھے تعلقات بن گئے اورروزانہ ابو سالم اس سے ملنے جلنے لگا ۔ جلد ہی ابو سالم داﺅد ابراہیم کے گینگ میں شامل ہو گیا اور اس کیلئے بندوق اٹھا لی ۔ابوسالم کی ذمہ داری گینگ کے نشانہ بازوں کیلئے شہر میں مختلف مقامات پر اسلحے کی ترسیل تھی۔مگر اپنی بہادری اور خصوصیات کی بنا پر جلد ہی اس نے اس گروہ میں اپنا مقام بنا لیا اور اسے ترقی مل گئی چنانچہ اس نے اپنے باس کیلئے کاروباری لوگوں اور بالی وڈ کی شخصیات سے بھتہ وصول کرنا شروع کر دیا۔ٹیکسی ڈرائیور کے طور پر عملی زندگی کا آغاز کرنے والا یہ نوجوان جلد ہی ممبئی کا ایک بڑا غنڈہ بن گیا جس سے ممبئی کے بڑے بڑے تاجر ، صنعت کار ، بالی وڈ کے اداکار اور فلمسازڈرنے لگے اور اس کو منہ مانگا بھتہ دینے لگے۔ابو سالم پر بھارتی حکومت نے جو الزامات لگائے ہیں ان میں متعدد معروف شخصیتوں کا قتل ،اغوا ، اغوا برائے تاوان جیسے سنگین الزام ہیں جبکہ 1993میں ممبئی میں ہونے والے دھماکوں میں حصہ لینے کا بھی الزام ہے جس میں تقریباً 250سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔ابو سالم داﺅد ابراہیم کے گروہ میں کافی عرصہ تک مختلف نوعیت کے کام کرتا رہا مگر اس کی طبیعت میں اکھڑ پن کی وجہ سے بعد میں اس کا داﺅد ابراہیم سے اختلاف ہو گیا جبکہ فلم ساز گلشن کمار کے قتل کے بعد ابوسالم اور داﺅد ابراہیم میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے اور یہ داﺅد ابراہیم کے گروہ سے علیحدہ ہو گیاجبکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گلشن کمار کاقتل ابوسالم نے اپنی مرضی سے کیا تھا جس میں داﺅد ابراہیم کی مرضی شامل نہیں تھی چنانچہ داﺅد ابراہیم نے ابوسالم کو اپنے گروہ سے نکال دیا مگر اس دوران ابوسالم کا نام بھی شہرت پکڑ چکا تھا چنانچہ اس نے اپنا گروہ بنا لیا اور مجرمانہ سرگرمیوں کو جاری رکھا۔مگر جب ممبئی دھماکوں میں اس کا نام آیا اور بھارتی پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اس کے پیچھے پڑ گئیں تو ابوسالم اپنی محبوبہ فلمی اداکار مونیکا بیدی کے ساتھ جعلی کاغذات بنوا کر بھارت فرار ہو گیا اور پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں رہائش اختیار کر لی۔جس کا بعد میں بھارتی حکومت کو پتہ چل گیا چنانچہ بھارت کی سی بی آئی نے حکومت کے ایما پر پرتگال کی حکومت سے ابوسالم کی حوالگی کیلئے درخواست دی۔کئی سال تک اس درخواست کی سماعت عدالت میں ہوتی رہی آخر کار پرتگال حکومت نے کچھ شرائط پر ابوسالم اور اس کی محبوبہ مونیکا بیدی کو بھارتی حکومت کے حوالے کر دیاجنہیں سی بی آئی ایک چارٹر طیارے کے ذریعے 10نومبر2005کوہندوستان لے لائی۔ مافیا ڈان ابو سالم جس کا نام عبدالسالم انصاری ہے اور اس کا تعلق ہندوستان کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ کے ایک قصبے سرائے میر نامی سے ہے جو اعظم گڑھ سے تقریباً 25کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ ابو سالم کو لزبن سے ہندوستان لانے کی خبر ان کے آبائی قصبے تک پہنچتے ہی سارے قصبے کے لوگوںنے خاموشی اختیار کر لی۔ سرائے میر کے باشندوں نے 1984کے بعد ابو سالم کو اس علاقے میں نہیں دیکھا تھا اور جن لوگوں کے ذہن میں اس کی چند یادیں بچی ہیں وہ ابو سالم کواب یاد نہیں کرنا چاہتے ۔مقامی باشندے ذاتی طور پر ابو سالم سے ناراض تو نظر آئے لیکن گذشتہ برسوں میں جس طرح میڈیا نے ابو سالم کے بارے میں لکھا ہے اس سے وہ میڈیا سے بھی ناراض ہیں ۔ مقامی باشندوں نے صاف طور پر میڈیا کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے اور سرائے میر کا کوئی بھی شخص کچھ بھی کہنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ اس بات کا اندازہ ابو سالم کے 16سالہ بھتیجے محمد عارف انصاری کے بیان سے صاف طور پر لگایا جاسکتا ہے ۔جب بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کے کچھ افرادنے ان سے ابوسالم کے بارے میں سوالات کیے تو محمدعارف انصاری کا کہنا تھا کہ آپ لوگ ہم سے کیوں بات کرنا چاہتے ہیں جبکہ آپ لوگ تو و ہی کچھ لکھیں گے جو آپ چاہتے ہیں ۔محمدعارف انصاری نے یہ بتانے سے صاف انکار کردیا کہ ان کے والد یعنی ابوسالم کے بڑے بھائی اور اسکی دادی یعنی ابو سالم کی والدہ اس وقت کہاں ہیں ۔ حالانکہ ان کے گھر کے صحن میں عورتوں اور بچوں کے کپڑے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ گھر میں کون کون ہو سکتا ہے ۔ محمد عارف انصاری نے بمشکل صرف اتنا بتایا کہ اس کی دادی خبر سننے کے بعد کافی غمگین ہو گئی ہیں ۔ اس نے کہا کہ آپ لوگ سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے چاہے ابوسالم بھلے ایک انٹر نیشنل کریمنل ہی کیوں نہ ہو لیکن وہ ان کی اولاد ہے۔ محمد عارف انصاری نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا کہ جس میں کہا جا رہا تھا کہ سرائے میر صرف ابو سالم کے رحم و کرم پر ہے۔ عارف انصاری کا کہنا تھا کہ یہاں زندگی اپنے آپ میں ہی بہت کچھ ہے ۔ ابو سالم کے ایک پڑوسی کا کہنا تھا کہ جو لوگ ابو سالم کو نزدیک سے جانتے ہیں ان کیلئے میڈیا میں آنے والی باتوں پر یقین کرنا بے حد مشکل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ممبئی جانے سے پہلے وہ بھی عام بچوں کی طرح تھا وہ ایک بااخلاق اور مزاحیہ طبیعت کا شخص تھا ۔ابوسالم کے ایک اور پڑوسی نے بتایا کہ ابو سالم اپنے چچا کی دکان پر کام شروع کرنے سے قبل چند برسوں کیلئے سکول جاتا رہا۔ تاہم اس کے علاوہ اس نے کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ مقامی باشندوں کے مطابق ابو سالم جب سرائے میر میں تھا تو اس دوران وہ کبھی بھی کسی قسم کی سماج دشمن سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہا ۔ابوسالم کے ایک اور پڑوسی کے مطابق ممبئی پہنچنے کے بعد جب وہ داﺅد ابراہیم کے گینگ میں شوٹر بن گیا اور اس کا نام فلم ساز گلشن کمار کے قتل میں سامنے آیا تواس کے بعد سے ہی اس نے سرائے میر سے اپنے تمام تعلقات ختم کر دیے تھے ۔سرائے میر ایک سکول ٹیچر کے مطابق ابوسالم کا آبائی ضلع اعظم گڑھ کسی زمانے میں کیفی اعظمی ، شبلی نعمانی اور ایودیا سنگھ اوپادھیائے جیسے ادیبوں کے نام سے جانا جاتا تھا مگر آج وہی اعظم گڑھ ممبئی ، دوبئی ، ملایشیاءاور سنگا پور کو مافیا ڈان اور شوٹر فراہم کر رہا ہے ۔ پورے قصبے پر اگر نظر ڈالیں تو ہر دوسرا مکان آسمان کو چھو رہا تھا تقریبا ًہر دوسرے گھر کا ایک کوئی نہ کوئی فرد عرب ممالک یا جنوب مشرقی ایشیاءکے ممالک میں کام کر رہا ہے اور اس بات کا اندازہ اس چھوٹے سے قصبے میں ساٹھ سے زیادہ ٹیلی فون بوتھوں کی موجودگی سے لگایا جا سکتا ہے۔مقامی باشندوں کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت والے اس علاقے کو سبھی بھارتی حکومتوں نے نظر انداز کیا ہے ۔ اس لئے یہاں کے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پہلے ممبئی کا رخ کرتے ہیں اور پھر وہاں سے عرب ممالک چلے جاتے ہیں ۔ 11نومبر 2005بروزجمعہ کو عدالت میں پیش کیا جانے ولا ابو سالم بھارتی انڈر ورلڈ کا سب سے خوفناک کردار ہے ۔بھارتی پولیس نے ابو سالم عرف عبدلاسالم انصاری پر الزام لگایا ہے کہ وہ 1993کے ممبئی بم دھماکوں میں ملوث ہے جن میں 250سے زیادہ لوگ ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہوئے تھے ۔جبکہ تفتیشی اہلکاروں کو ابو سالم سے ساٹھ سے زیادہ قتل کی وارداتوں میں بھی پوچھ گیچھ کرنی ہے اس کے علاوہ اس پر بہت سے اغواءاور تاوان کے مقدمات بھی درج ہیں جن کے متاثرین میں بالی وڈ کچھ اداکار اور فلمساز بھی شامل ہیں۔ابوسالم 1993کے دھماکوں کے بعد اپنی ساتھی مونیکا بیدی کے ساتھ ملک سے فرار ہو گیا تھا۔ یہ دونوں پرتگال چلے گئے اور اس کے دارا لحکومت لزبن میں بارہ سال تک تارکین وطن بھارتی لوگوں کے ساتھ رہے۔لیکن آخر کار ان کے اچھے دن بھی ختم ہوئے جب انہیں پرتگالی پولیس نے انٹرپول کی درخواست پر حراست میں لے لیا ۔اس وقت سے بھارت نے ان کو واپس بھارتی حکومت کے حوالے کرنے کیلئے دباﺅ ڈالا ہوا تھا۔پرتگالی عدالت نے نومبر 2003میں ابوسالم کو جعلی کاغذات رکھنے کے جرم میں ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی، جبکہ مونیکا بیدی کو دو سال کی سزا سنائی گئی۔ پرتگالی حکومت نے بھارتی حکومت کی اس یقین دہانی کے بعد انہیں سزائے موت نہیں دی جائے گی تب ان کو بھارت کے حوالے کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ بھارتی حکومت کے مطابق ابوسالم بھارت کے سب سے زیادہ مطلوب شخص داﺅد ابراہیم کا قریبی ساتھی تھا ۔ داﺅد ابراہیم بھی ممبئی دھماکوں میں مطلوب ہے ۔ خیال ہے کہ یہ دھماکے 1992میں گجرات کے فسادات کے جواب میں کیے گئے تھے جن میں سینکڑوں مسلمان ہلاک ہوئے تھے ۔ان فسادات کا الزام ہندو شیو سینا پارٹی پر لگایا جاتا ہے ۔بھارت کی ایجنسیوں کے مطابق داﺅد ابراہیم اب پاکستان میں ہے اور وہاں سے سب کچھ کنٹرول کر رہا ہے۔ابوسالم شروع میں داﺅد ابراہیم کا دوسرے یا تیسرے درجے کا سپاہی تھامگر بالی وڈ کے پروڈیوسر گلشن کمار کے سنسی خیز قتل کے بعد ابو سالم کا شمار بڑے غنڈوں میں ہونے لگا۔ جبکہ چندہی ماہ بعد اس پر ایک اور پروڈیوسر راجیو راج کو زخمی کرنے کا الزام بھی لگا ۔ اب بالی وڈ میں ابو سالم کی دھاک بیٹھ چکی تھی اورابو سالم ان دو واقعات کو اپنے شکار کو حراساں کرنے کیلئے استعمال کرنے لگا۔ اس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کی وجہ سے اس کی ممبئی کے ایک اور بدنام گینگ کے ساتھ مخالفت شروع ہو گئی جس کے سربراہ کا نام چھوٹا شکیل تھا۔چھوٹا شکیل بھی جرائم کی دنیا میں داﺅد ابراہیم کے نائب کی حیثیت اختیار کر چکا تھا ۔ ابوسالم 1998میں داﺅد کے گینگ سے علیحدہ ہو گیا ۔ 90ءکی دہائی کے آخری سالوں میں ابوسالم کا بالی وڈ میں اثرورسوخ بھارتی فلم انڈسٹری میں دیومالائی کہانی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ پولیس کے مطابق منیشا کوئرالہ کے سیکریٹری اجیت دیوانی کے قتل میں بھی ابوسالم کا ہاتھ تھا ۔ وہ پروڈیوسروں سے بھتہ لیتا تھا اور اس نے فلمیں بھی بنانا شروع کر دیں۔ اور وہاں پر ہی اس کی ملاقات مونیکا بیدی سے ہوئی اور دونوں نے ایک ساتھ رہنا شروع کر دیا ۔پولیس کا خیال ہے کہ ابوسالم پروڈیوسروں پر دباﺅ ڈالتا تھا کہ وہ مونیکا کو اس کی ناکام فلموں کے باوجود نئی فلموں میں کاسٹ کریں ۔ ابوسالم کے ملک سے فرار کے بعد بالی وڈ کے حالات بہت بدل گئے ہیں اب عام تاثر ہے کہ شہر کا مافیا اب فلمی صنعت پر اتنا اثر نہیں رکھتا جتنا پچھلی دو دہائیوں میں رکھتا تھا۔ 11نومبر 2005بروزجمعہ کو دوپہر کے وقت ابوسالم کو بم دھماکوں کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا اور عدالت نے 23نومبر تک پولیس ریمانڈ میں دے دیا۔جبکہ ہفتے کے دن ان کی ساتھی مونیکا بیدی کو عدالت میں پیش کیا گیاجس نے اس کا ریمانڈ دیتے ہوئے اسکی درخواست ضمانت پر اسے دوبارہ پیش کرنے کو کہا ہے۔ ممبئی میں ابوسالم کے خلاف کم از کم ساٹھ فوجداری مقدمات درج ہیں جس میں بم دھماکوں کے علاوہ فلم ساز گلشن کمار، مکیش دگل ، مونیشا کوئرالہ کے سیکریٹری اجیت دیوانی ، ٹھیکیدار پردیپ جین سمیت کئی افراد کے قتل ،ہفتہ وصولی اور جان سے مارنے کی دھمکی اور فرضی پاسپورٹ کے کیس ہیں ۔ ممبئی میں سی بی آئی کے دفتر کے باہر پولیس اور اسپیشل ٹاسک فورس کا زبردست پہرہ ہے۔وزیراعلیٰ کے دفتر منترالیہ کے سامنے واقع سی بی آئی کے دفتر میں ابوسالم سے ابھی تفتیش جاری ہے اور پولیس کمشنر اے این رائے کے مطابق ایسے کئی رازوں سے پردہ اٹھنے کے امکانات ہیں جس سے پولیس ابھی بھی ناواقف ہے۔ابوسالم پر الزام ہے کہ انہوں نے 1993کے سلسلہ وار بم دھماکوں میں اسلحہ سپلائی کیا تھا ۔12مارچ1993کو ہونے والے ان بم دھماکوں میں 257افراد ہلاک ہوئے تھے اور1000قریب لوگ زخمی ہوئے جبکہ27کروڑ سے زیادہ مالیت کا نقصان ہواتھا اوراس مقدمے میں 192ملزمان کے خلاف چارج شیٹ داخل ہوئی جس کا اہم ملزم داﺅد ابراہیم اور ٹائیگر میمن کو بتایا گیا تھا۔ 20ستمبر2002میں ابوسالم کو انٹر پول کی مدد سے پرتگال کے شہر لزبن میں ان کی ساتھی مونیکا بیدی کے ساتھ فرضی پاسپورٹ کے ذریعے شہر میں داخل ہونے کے جرم میں گرفتار کیا تھا ۔ ابو سالم کی گرفتاری کے بعد سے سی بی آئی نے پرتگال حکومت سے حوالگی کا مطالبہ شروع کیا تھالیکن اس میں اسے کامیابی فروری2004میں ہوئی جب عدالت نے سی بی آئی کو اپنا کیس پیش کرنے کیلئے کہا اور دستاویزات کی جانچ کے بعد عدالت نے اس شرط پر دونوں ملزمان کو بھارت کے حوالے کیا کہ وہ انہیں پھانسی کی سزا نہیں دے سکتے اور نہ ہی انہیں25سال سے زیادہ قید میں رکھ سکتے ہیں ۔ واضع رہے کہ یورپی ممالک میں موت کی سزا پر پابندی ہے۔ پولیس مطابق گلشن کمار کا قتل ابو سالم نے داﺅد ابراہیم سے پوچھے بغیر کیا تھا جس پر داﺅد ابراہیم نے اسے اپنے گینگ سے باہر نکال دیا اس کے بعد ابوسالم نے امریکہ میں اپنا اڈا بنالیا اس کے بعد سے فلمی دنیا پر اس نے اپنا شکنجہ کسنا شروع کر دیا ۔ ابوسالم کے بارے میں سی بی آئی اور ممبئی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ بھیس بدلنے میں ماہر ہے۔ ان کے پاس8سے زائد فرضی پاسپورٹ ہیں جن کی مدد سے وہ اپنے ٹھکانے بدلتے رہتے تھے۔ فلم ساز مکیش دگل پروگرام کرنے کیلئے اپنے ساتھ مونیکا بیدی کو دوبئی لے گئے اور اطلاعات کے مطابق اسی دوران ابوسالم اور مونیکا میں پیار ہو گیا ۔ ابوسالم نے اس لئے کئی فلم سازوں کو مبینہ طور پر دھمکا کر مونیکا کو فلموں میں کام دلانا شروع کیا۔پولیس ریکارڈ کے مطابق بعد میں ابوسالم نے کسی وجہ سے مکیش کا قتل کروایا۔ممبئی پولیس کمشنر اے این رائے نے ابوسالم کی گرفتاری کو ایک بڑی کامیابی بتلایا اور کہا کہ اس کے خلاف جو مقدمات درج ہیں ان میں سے کئی مقدمات میں اسے پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے لیکن پرتگال حکومت کوکیے گئے وعہدے کی وجہ سے عدالت اس پر شاید عمل نہ کر سکے۔پولیس کمشنر کے مطابق ابوسالم سے تفتیش کے دوران کئی رازوں سے پردہ اٹھ سکتاہے۔داﺅد ابراہیم کے کام کرنے کے انداز، اس کے خفیہ اڈوں اور اس کے ساتھ بالی وڈ اور انڈرورلڈ کے تعلقات بھی بے نقاب ہو گے۔ پرتگال میں محکمہ انصاف کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھارت میں سب سے زیادہ مطلوب شخص ابوسلیم انصاری عرف ابوسالم کو انڈین حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ ابو سالم انڈیا کے شہر ممبئی میں بم دھماکوں میں مطلوب ہے جبکہ ابوسالم نے ان دھماکوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے ۔پرتگال میں حکام کے مطابق ابوسالم کو ان کی ساتھی فلم ایکٹرس مونیکا بیدی کے ہمراہ انڈین حکام کے حوالے کیا گیا۔ابوسالم کو پرتگال میں 2002میں جعلی دستاویزات رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور پچھلے دو برس سے اپنے آپ کو انڈیا کے حکام کے حوالے کیے جانے کے خلاف مقدمہ لڑ رہا تھا ۔اگرچہ انڈیا اور پرتگال کے درمیان مجرموں کی حوالگی سے متعلق کوئی معاہدہ نہیں ہے لیکن انڈیا نے پرتگال کے حکام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ابوسالم اور مونیکا بیدی کو انڈیا میں سزائے موت نہیں دیجائے گی جو یورپی قوانین کے خلاف ہے ۔ بھارت کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش میں پولیس نے ایک پولیس آفیسر اور دوسول اہلکاروں کو ابوسالم اور ان کی دو خاتون ساتھیوں کو فرضی پاسپورٹ اور دیگر دستاویزات بنوا کر دینے کے الزام میں گرفتار کیا ہے ۔ ان اہلکاروں سے جنہوں نے ابوسالم کو فرضی نام اور پتوں سے پاسپورٹ جاری کیا ان سے بھی پوچھ گیچھ کی جارہی ہے ۔پرتگال میں بھارت کے سفیر مدھو بہادری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ پرتگال کی عدالت نے فیصلہ کیا ہے کہ ابوسالم کو تین ماہ کیلئے حراست میں رکھا جائے گا ۔ اس درمیان بھارتی حکومت کا بھارت لانے کے بارے میں قدم اٹھا سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ابھی تو شروعات ہوئی ہے ابوسالم کو دس سال بعد گرفتار کیا ہے اور ہم نے یہ کہا ہے کہ انہیں کچھ دیر احتیاطی حراست میں رکھا جائے تاکہ ہمیں وقت ملے کہ ہم پوری قانونی کاروائی کر کے ابوسالم کو بھارت لے جاسکیں۔اس سے قبل ابوسالم کو دو مرتبہ دوسرے ملکوں میں گرفتار کیا جا چکا ہے پہلی مرتبہ 1997میں اور دوسری بارگذشتہ سال اکتوبر میں لیکن دونوں ہی بار وہ بھارتی حکام کی گرفت سے بچنے میں کامیاب رہا۔ سی بی آئی نے13نومبر کو دعویٰ کیا ہے کہ پرتگال سے حوالگی معاہدے کے تحت بھارت لائے گئے انڈرورلڈ ڈان ابوسالم نے تفتیش کے دوران اس بات کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ 1993کے سلسلہ وار دھماکوں میں انہوں نے اسلحہ اور بارود فراہم کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی تفتیشی ایجنسی نے ابوسالم کی سائنسی جانچ کو بھی خارج از امکان نہین قرار دیا ہے۔ دوسری طرف ابوسالم کے وکیل نے اس طرح کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے پہلے ہی ایک عرضی داخل کر رکھی ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ ابوسالم کسی بھی معاملے میں اعتراف جرم نہیں کرنا چاہتے۔ اس لئے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ بم دھماکوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیں ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا موکل پولیس تفتیش میں پوری طرح سے تعاون کرے گا۔ ابوسالم سے تفتیش کرنے والے اہلکاروں نے بتایا کہ تفتیش کے دوران ڈان بہتر طریقے سے تعاون کر رہے ہیں ۔ سالم کی سائنسی ٹیسٹ جیسے پولی گراف اور برین میپنگ وغیرہ کے معاملے میں سی بی آئی نے کہا کہ اس طرح کے ٹیسٹ خارج از امکان نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی نے وضاحت کی کہ ابھی اس ضمن میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ۔ ایک سینئر سی بی آئی افسر نے کہا کہ ہم اس امکان کو خارج نہیں کرتے لیکن ہمارے پاس پہلے سے ہی اس کے خلاف خاطر خواہ ثبوت موجود ہیں اور ان ثبوتوں کی بنیاد پر ہی ہم اسے پرتگال سے بھارت لانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ سی بی آئی افسر کا کہنا ہے کہ حالانکہ ہمیں ایک سخت ترین جرائم پیشہ شخص کا سامنا ہے لیکن پوچھ تاچھ اور 1993کے سلسلہ وار بم دھماکوں کی تفتیش میں وہ مکمل طور پر تعاون کر رہا ہے۔ایک افسر نے بتایا کہ ہماری تفتیش کی دوران پوری توجہ 1993کے بم دھماکوں پر ہے تاہم افسر نے اب تک کی تفتیش کی تفصیل بتانے سے انکار کردیا ۔ اس اہلکار نے میڈیا میں پھیلی ان خبروں پر بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا جس کے مطابق ابوسالم نے تفتیش کے دوران بالی وڈ اور سیاست سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد کے نام لیے ہیں ۔سی بی آئی افسر نے بتایا کہ گذشتہ دو روز کی تفتیش کے دوران ابوسالم سے داﺅد ابراہیم کے ٹھکانے سے متعلق کوئی سوال نہیں کیا گیا ۔انھوں نے کہا کہ بہر حال ہر شخص جانتا ہے کہ وہ داﺅد ابراہیم کہاں ہے۔ اس لئے ابوسالم سے اس سلسلے میں پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس دوران ٹاڈا عدالت اور قانونی ذرائع کا کہنا ہے کہ ابوسالم کو بھارت لائے جانے کے بعد اس پر ناڈا قانون کے تحت علیحدہ مقدمہ چلایا جائے گا اور 12مارچ1993کو جو دھماکے ہوئے تھے ان سے متعلق چلائے جانے والے مقدمے پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ۔ذرائع کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ مصطفےٰ مجنوں کی طرح سالم کے خلاف بھی علیحدہ مقدمہ چلایا جائے گا ۔ واضع رہے کہ مصطفےٰ مجنوں کو کچھ عرصہ قبل ہی دوبئی سے لایا گیا تھا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ناڈا عدالت کے جج پی ڈی کوڈ اگلے سال کے شروع میں اس مقدمے کا فیصلہ سنا دیں ۔ مقدمہ شروع ہونے سے سی بی آئی کو جو ان دھماکوں کی تحقیقات کر رہی ہے کو 80دن میں فرد جرم عائد کرنی ہو گی ۔مقدمے کی کاروائی کو آگے بڑھانے کیلئے ابوسالم کا اعتراف گناہ سے متعلق بیان بھی ریکارڈ کرنا ہوگا۔فوجداری معاملات کے سرکردہ وکیل ستیش مینشنڈے کا کہنا ہے کہابو سالم کی گرفتاری سے ممبئی کے دھماکوں سے متعلق چلائے جانے والے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔اس مقدمے میںفلمی اداکارہ سنجے دت کے علاوہ 123دیگر افراد کے خلاف ممبئی کی عدالت میں مقدمے کی سماعت جاری ہے جس کا جلد ہی فیصلہ ہونے والا ہے ۔ علاوہ ازیں فلمی اداکار سنجے دت کے خلاف مقدمے کے سلسلے میں بھی عدالت کو اس سے پوچھ گچھ کرنی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ سالم نے سنجے دت اور تین دوسرے مجرموں کو ہتھیار مہیا کئے تھے۔ٹاڈا کی عدالت میں ابو سالم کو حراست میں لینے کی عرضی داخل کرتے ہوئے سی بی آئی نے کہا کہ اس مقدمے کے ایک اور ملزم بابا موسیٰ چوہان نے اپنے بیان میں اعتراف کیا ہے کہ ابوسالم نے دھماکے کرنے والے ملزموں کو ہتھیار سپلائی کئے تھے۔ ابو سالم کی زندگی اگرچہ جرائم کی دنیا میں گزری اور اس نے متعدد سنگین نوعیت کی وارداتیں کیں اور کروائی مگران کے خلاف الزامات میں شدت صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے ہے اگر ابوسالم کو بھارتی حکومت ہندوستان سے گرفتار کرتی تو اب تک انہیں یا تو پولیس مقابلے میں مار دیا جاتا یا اب تک انہیں سزائے موت ہو جاتی مگر پرتگال سے پکڑے جانے پر ابوسالم کو یہ اطمینان حاصل ہے کہ اگرچہ ان کی زندگی تو شاید اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی گزرے مگر وہ بھارتی حکومت کے ہاتھوں پھانسی کے پھندے پر نہیں جھولیں گے۔

0 comments:

Post a Comment