القاعدہ
کے مقتول لیڈراسامہ بن لادن کے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں واقع مکان سے
امریکیوں کے ہاتھ لگنے والی دستاویزات کو اب وقفےو قفے سے منظرعام پر لایا
جارہا ہے اور ان کے مطابق اسامہ بن لادن ،افغانستان کے طالبان مزاحمت
کاروں اور دوسرے جنگجوؤں کے درمیان جنگ زدہ ملک میں نیٹو فوجیوں پر حملوں
کے لیے منصوبہ بندی سمیت قریبی تعلقات کار قائم تھے۔واشنگٹن سے تعلق رکھنے
والے ایک ذریعے نے برطانوی اخبار گارڈین کو ان خفیہ دستاویزات کے مندرجات
سے آگاہ کیا ہے جن کے مطابق اسامہ بن لادن ،ان کے نائب ایمن الظواہری اور
افغان طالبان کے امیر ملا محمد عمر نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے بہت قریب
تھے اور ان کے درمیان ابلاغی روابط قائم تھے۔امریکیوں کے ہاتھ لگنے والی
دستاویزات میں وہ خط وکتابت اور یادداشتیں بھی شامل ہیں جو اسامہ بن لادن
نے لکھوائی تھیں اور ان میں انھوں نے اپنے پیروکاروں پر زوردیا تھا کہ وہ
بلاامتیاز حملوں سے گریز کریں کیونکہ اس طرح مسلمانوں کی ہلاکتیں ہوتی
ہیں۔گارڈین نے لکھا ہے کہ ''امریکی اور افغان حکام نے حال ہی میں اس توقع
کا اظہار کیا ہے کہ طالبان کو دہشت گردی کی مذمت پر آمادہ کیا جاسکتا ہے
لیکن ان دستاویزات سے ان خدشات کو تقویت ملی ہے کہ طالبان نے ایک مرتبہ پھر
القاعدہ یا اس کے ہم خیال جنگجوؤں کو محفوظ ٹھکانوں کی پیش کش کی ہے۔اس
لیے اس کے تناظر میں طالبان اور القاعدہ کی اعلیٰ قیادت کے درمیان قریبی
تعاون اور اتحاد کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے۔امریکی حکام ماضی میں
افغانستان میں نیٹو فوجیوں سے لڑنے والے مقامی طالبان اورالقاعدہ کے
جنگجوؤں کے درمیان امتیازی لکیر کھینچنے کی بھی کوشش کرتے رہے ہیں جبکہ
اقوام متحدہ نے بھی گذشتہ سال پابندیوں کا ہدف القاعدہ اور طالبان ارکان کی
الگ الگ فہرست جاری کی تھی۔اخبار نے لکھا ہے کہ ''اسامہ بن لادن کی اپنے
نائب ایمن الظواہری اور طالبان کے قائد ملامحمد عمر سے خط وکتابت ایبٹ آباد
میں ان کے کمپاؤنڈ سے ملنے والے ان کے ایک کمپیوٹر کے ڈیٹا میں محفوظ
تھی۔ ان کا کورئیر ان خطوط کو میموری اسٹکس پر محفوظ کرکے شہر میں انٹرنیٹ
کیفے کے ذریعے ان کے مکتوب الیہان کو بھیجتا تھا۔اسی کورئیر کا سراغ لگانے
کے بعد امریکی سی آئی اے کے اہلکار القاعدہ کے مقتول سربراہ تک پہنچنے میں
کامیاب ہوئے تھے''۔اخبارکی رپورٹ کے مطابق اسامہ بن لادن کی کمپیوٹر پر
تحریریں ان کی ہلاکت سے صرف ایک ہفتہ قبل سے لے کر کئی سال پرانی تھیں اور
ان سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وہ نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے جنگجو
گروپ بوکو حرام کے علاوہ متعدد دوسرے گروپوں سے براہ راست یا بالواسطہ
ابلاغی رابطے میں تھے۔دستاویزات سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ بوکوحرام کے
سربراہ گذشتہ اٹھارہ ماہ سے القاعدہ سے اعلیٰ سطح پر رابطوں میں تھے۔واضح
رہے کہ اسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں 2مئی 2011ء کو امریکی خصوصی فورسز کی
ایک چھاپہ مار کارروائی میں ہلاک ہوگئے تھے۔اس واقعہ کے بعد سے امریکی اور
مغربی میڈیا اور خفیہ ادارے القاعدہ کے مقتول لیڈر کا پاکستان کے سکیورٹی
اداروں سے ناتا جوڑنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔امریکی اس بات
کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کررہے ہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان کے
دارالحکومت اسلام آباد سے صرف تین گھنٹے کی مسافت پرواقع ایک فوجی شہر میں
کیسے بڑے پُرسکون انداز میں رہ رہے تھے اور ان کی موجودگی کا چار پانچ سال
کا عرصہ گزرجانے کے باوجود سراغ کیوں نہیں لگایا جاسکا تھا۔اسامہ بن لادن
اپنے خاندان کے ساتھ جس مکان میں رہ رہے تھے،اس کو اب مسمار کردیا گیا تھا
اور وہاں اب مبینہ طور پر ایک پارک بنایا جائے گا۔
0 comments:
Post a Comment